مدارس کی اہمیت و ضرورت

importance of madrasa​

کسی بھی قوم کے عروج و ترقی،تفوق و برتری اور بالادستی و سرفرازی کا راز تعلیم میں مضمر اور پنہاں ہے، جو قوم تعلیم کے میدان میں پیچھے رہتی ہے اپنی سیادت و قیادت کھوبیٹھتی ہے اور دوسروں کے سامنے اپنا وقار اور حیثیت بھی گنوا دیتی ہے، تعلیم سے تہذیب و تمدن آتا ہے، اس سے فکریں بلند، حوصلے مضبوط اور عزائم ٹھوس ہوتے ہیں اور یہ کامیابی و کامرانی کا اولین زینہ ہے، ہر دور اور ہر زمانے میں قوموں کی تاریخ بدلنے اور ان میں نمایاں تبدیلی لانے میں تعلیم کا اہم اور غیر معمولی کردار رہا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ وہ عرب قوم جو اسلام سے پہلے بدّوکہلاتی تھی، اونٹ اور بکریاں چراناجن کا شیوہ تھا، اجڈ، تعلیم سے نابلند، جہالت کی دلدل میں اس طرح پھنسی ہوئی کہ دنیا اب بھی اس تاریک دور کوزمانۂ جہالت سے یاد کرتی ہے، تہذیب و تمدن سے اس قدر عاری کہ اس وقت کی متمدن دنیا اور ترقی یافتہ ممالک ان پر حکمرانی تک کرنا گوارا نہیں کرتے تھے، لیکن جب انہوں نے تعلیماتِ اسلام کے گراں قدر تحفہ اور لازوال و بیش بہا سرمایہ اور دولت سے اپنے کو آراستہ کیا تو وہ صحابہ کی مقدس جماعت بن گئی اور وہی جاہل قوم جسے کل تک دنیا ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے اس وقت کی سپرطاقت روم اور فارس ان کے زیر نگیں آگئے اور متمدن اقوام کے تخت و تاج پر ان کی حکومت و سلطنت کے پرچم لہرانے لگے۔
اس وقت بھی پوری دنیا میں تعلیم اور وگیان سرچڑھ کر بول رہی ہے، اس میدان میں جو ملک جتنا آگے ہے، اتناہی زیادہ اس کا سکہ اوردھاک پوری دنیا پر بیٹھی ہوئی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک میںیاس وناامیدی کا شکار ہماری مسلم قوم تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہے۔ اسی لیے سیاسی میدان میں بھی یہ طبقہ نتیجہ خیز رول اور فعَّال کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔
یوں تو پورے بہار ہی میں مسلمانوں کی مالی اور اقتصادی حالت بہت کمزور ہے، لیکن وہ اضلاع جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جیسے پورنیہ، کشن گنج، ارریہ،کٹیہار وغیرہ یہاں مسلمان غربت زدہ اور پسماندہ ہونے میں مشہور ہیں اور اکثر علاقہ اور خطہ سیلاب زدہ ہونے کی وجہ سے تقریباً ہرسال سیلاب کی مار اور تباہی سے دوچار رہتا ہے۔ یہاں کا عام طبقہ غریبوں اور مزدوروں کا ہے، یا پھر کسانوں اور کاشتکاروں کا، سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی شرح فیصد تو پورے ملک ہی میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں‘ جو بالکل عیاں ہے اور ان علاقوں میں کارخانوں اور فیکٹریوں کا وجود تو کسی عنقاء سے کم نہیں، ایسے بدترین حالا ت میں عصری و دنیاوی اعلیٰ معیاری تعلیم تو کُجا، بنیادی ضروری اسلامی تعلیمات سے بھی مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نا آشنا اور محروم ہے۔
بحمد اللہ خطے کے باہمت علمائِ کرام نے اس طرف توجہ دی اور ان کی کوشش سے بہت سے دینی مدارس عربیہ وجود میں آئے اور تعلیمی مشن میں سرگرم ہیں، لیکن ان کی تعداد اب بھی ضرورت سے کہیں بہت کم ہے، اس لیے اب بھی خطے میں ایسے دینی اداروں کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے، جن میں بنیادی اسلامی تعلیمات (دینیات) قواعدِ تجوید کی رعایت کے ساتھ تحفیظ قرآن کریم، ناظرہ قرآن اور ابتدائی عصری تعلیم (یعنی ہندی، انگریزی، حساب وغیرہ) کا معقول نظم ہو اور مسلم نونہالوں خصوصاً لڑکیوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے؛ تاکہ آئندہ ایک اچھی نسل تیار کی جائے، جس سے ایک صاف ستھرا معاشرہ وجود میں آسکے۔